دنیا میں شیل گیس کی دریافت نے ایک انقلاب برپا کردیا۔ شیل گیس کیا نکلی بہت سے ملکوں کے ہاتھ اربوں ڈالر کا خزانہ آگیا۔ اعلان کردیا گیا کہ شیل گیس کی دریافت سے امریکا چند سالوں میں توانائی کے حوالے سے خود کفیل ہوجائے گا۔ اوباما خوشی سے پھولے نہیں سمارہے کہ یہ ذخائر 100 سال تک چلیں گے۔ دوسری طرف امریکا، ایران اور وینزویلا میں صف ماتم بچھ گئی۔ امریکا نے تیل خریدنا بند کیا تو قیمتیں دن بہ دن گرتی چلی گئیں۔ تیل پیدا کرنے والے تمام بڑے ممالک سرجوڑ کر بیٹھے۔ توقع کی جارہی تھی کہ تیل نکالنے والے بڑے ممالک کی تنظیم اوپیک کے اجلاس میں کوئی بڑا فیصلہ سامنے آئے گا۔ اوپیک کا اجلاس ہوا اور اعلان کردیا گیا کہ قیمتیں جتنی بھی گرجائیں پیداوار میں کمی نہیں کی جائے گی۔ سننے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ پھر رفتہ رفتہ بات واضح ہوتی چلی گئی۔ دراصل اوپیک پر عملاً سعودی عرب کی اجارہ داری ہے۔ سعودی عرب کا عالمی سطح پر حریف ملک ایران اور داعش ہیں۔ اگر اوپیک اجلاس میں فیصلہ ہوجاتا کہ تیل کی قیمت گری ہے تو اس کی پیداوار بھی کم کردیں تو اس کا لازمی مطلب یہی نکلتا ہے کہ تیل نکالنے والے ملک اپنا نقصان کم سے کم ہونے دیں۔ سعودی عرب ایسا ہرگز نہیں چاہتا۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ ایران، عراقی تیل پر قابض داعش اور روس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔ اس لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں نے اپنا اربوں روپے کا نقصان گوارا کیا ہے تاکہ داعش اور ایران کمزور ہوں اور پڑوسی ملکوں میں مداخلت بند کردے۔
٭ دنیا ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی سیاست میں نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ ٭ ٭ قدرت پاکستان پر مہربان شیل گیس کے بعد سونے اور چاندی کے ذخائر دریافت ٭
تیل کی قیمتیں کم رکھنے کی ایک دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شیل تیل نکالنا چونکہ مہنگا پڑ رہا ہے، جب امریکا اور دوسرے ممالک شیل گیس نکال کر استعمال کریں گے تو وہ مہنگا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ مہنگا شیل تیل چھوڑ کر سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک سے خریدیں گے۔ سعودی عرب کا خیال ہے خام تیل کی قیمت 70 ڈالر سے نیچے گر جائے تو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے شیل تیل نکالنے والی کمپنیان گھاٹے میں چلی جائیں گی جبکہ سعودی عرب جو کہ پرانے روایتی کنووں سے تیل نکالتا ہے وہ 30 ڈالر تک کی کم قیمت پر بھی منافع میں رہتا ہے۔ ظاہر ہے سعودی عرب چاہتا ہے اس کے مدمقابل آنے والی شیل تیل کی نئی کمپنیاں نقصان اٹھا کر منڈی سے نکل جائیں اور اس کی اجارہ داری پھر مضبوط ہوجائے۔
اس طرح صرف چھ ماہ میں تیل کی قیمتیں تقریبا 55 فیصد کم ہوئی ہیں۔ کہنے کو تو دنیایک قطبی دور میں داخل ہوچکی ہے، مگر تیل کی قیمتوں نے دنیا کوتین واضح حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ پہلا حصہ ان ملکوں پر مشتمل ہے جو تیل برآمد کرتے ہیں مگر انہوں نے زر مبادلہ کے اتنے ذخائر جمع کررکھے ہیں کہ اگلے ایک عرصے تک وہ تیل کی اس کے بعد چین، جاپان، انڈیا سمیت تمام صنعتی ممالک شامل ہیں۔ اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ دنیا ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی سیاست میں نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ تیل کی بلند ترین قیمتیں اب شاید دوبارہ نہ واپس آسکیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ قیمتوں میں معمولی اتار چڑھائو تو جاری رہے گا، مگر بہت زیادہ تبدیلی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ پاکستان کے 70 فیصد علاقے میں شیل گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ شیل گیس سے بھی مالا مال ہے۔ اس وقت پاکستان سالانہ 11 ارب ڈالر تیل کی خریداری پر خرچ کررہا ہے۔ اگر شیل گیس کے ذخائر نکالے جائیں تو پاکستان توانائی کے حوالے سے خود کفیل ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف چین کے ایک میٹالوجیکل گروپ کے تعاون سے پنجاب کے شہر چنیوٹ میں سونے اور چاندی کے ذخائردریافت کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی گروپ اس جگہ پر سونے اور تانبے کے ذخائر پر کام کررہے تھے کہ اسی دوران سونے اور چاندی کے ذخائر کا انکشاف ہوا۔ ایک سینئر صوبائی انتظامی عہدیدار نے بتایا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق اس جگہ پر موجود لوہے کے ذخائر تو پانچ سو ملین ٹن خام لوہے کے ہیں جبکہ سونے اور چاندی کے ذخائر کے حجم کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔
کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے